
"لا متناہی کائنات: حقیقت کی سرحدوں سے پرے ایک تصور"
ہماری کائنات کا سب سے حیرت انگیز پہلو اس کا ناقابلِ تصور پھیلاؤ ہے۔ اگرچہ آج ہم طاقتور دوربینوں کی مدد سے زمین جیسی نئی دنیائیں تلاشنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن ان تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم "اینڈرومیڈا کہکشاں" تک جانا چاہیں، جو ہماری "ملکی وے" کہکشاں کے قریب ترین ہے اور تقریباً 25 لاکھ نوری سال دور واقع ہے، تو ہماری موجودہ رفتار سے وہاں تک پہنچنے میں 94 ارب سال لگیں گے! حتیٰ کہ اگر ہم روشنی کی رفتار سے بھی سفر کریں تو یہ سفر مکمل کرنے میں لاکھوں سال درکار ہوں گے۔
ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دنیاؤں کی تلاش کا فائدہ کیا ہے، جب ہم وہاں پہنچ ہی نہیں سکتے؟ لیکن اگر کوئی شارٹ کٹ ہو؟ ایک ایسا راستہ جو ہمیں لمبی کہکشانی دوریوں کو مختصر وقت میں طے کرنے کا موقع دے؟ جی ہاں، یہیں سے آتے ہیں "وارم ہولز"۔
وارم ہولز: سائنسی خیالی تصور یا حقیقت کا دروازہ؟

فلم Interstellar میں وارم ہولز کا تصور شاندار انداز میں پیش کیا گیا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ محض فلمی خیال نہیں بلکہ آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity) پر مبنی ایک سائنسی حقیقت بھی ہو سکتا ہے۔
آئن اسٹائن کی "فیلڈ ایکویشنز" وہ حسابی اصول ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مادہ (matter) اور توانائی (energy) کس طرح خلا (space) اور وقت (time) کو موڑتے ہیں۔ انہی مساوات کا ایک ممکنہ حل "بلیک ہولز" ہے، اور دوسرا دلچسپ حل "وارم ہولز"۔ آئن اسٹائن اور ان کے ساتھی نیتھن روزن نے 1935 میں ایک حل پیش کیا جسے Einstein-Rosen Bridge کہا گیا – یہی وارم ہول کا سائنسی نام ہے۔
سادہ الفاظ میں، وارم ہول خلا میں دو دُور مقامات کو جوڑنے والا ایک شارٹ کٹ راستہ ہے، بالکل ایسے جیسے ایک کاغذ کو موڑ کر اس پر پن مار دی جائے – دونوں کنارے یکدم جُڑ جاتے ہیں۔
کیا وارم ہولز حقیقت میں ممکن ہیں؟
اب تک وارم ہولز صرف ریاضیاتی اور تھیوریٹیکل سطح پر موجود ہیں۔ سائنسدانوں نے ان کی موجودگی کا کوئی عملی ثبوت نہیں پایا۔ لیکن اگر یہ کبھی حقیقت بن جاتے ہیں تو یہ انٹر گلیکٹک سفر (galaxy to galaxy travel) کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر وارم ہولز وجود رکھتے ہوں تو وہ شاید ہمیں ایک گول گیند (spherical ball) کی طرح دکھائی دیں، جس میں داخل ہوکر ہم خلا اور وقت کی خمیدہ راہوں سے گزرتے ہوئے کسی دُوسری کہکشاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ فلم Interstellar میں جو وارم ہول دکھایا گیا، وہ موجودہ سائنسی نظریات کے مطابق ایک نہایت حقیقت کے قریب منظر تھا۔
کیا مستقبل میں ہم وارم ہولز سے گزریں گے؟
فی الحال، وارم ہولز صرف ایک نظریاتی تصور ہیں۔ لیکن آئن اسٹائن کی مساوات اور سائنسی ترقی ہمیں یہ اُمید دیتی ہے کہ شاید ایک دن ہم ایسے شارٹ کٹس دریافت کر لیں جو پوری کائنات کو ہمارے لیے قابلِ رسائی بنا دیں۔ یہ صرف سائنسی تحقیق کا سوال نہیں، بلکہ انسان کے خوابوں، جستجو، اور بے پناہ تجسس کا بھی ثبوت ہے۔
0 Comments