
علیمہ خان کی عدالت میں دہائی: "جج حضرات انصاف نہیں دے سکتے تو گھر چلے جائیں"
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود اُنہیں اپنے بھائی عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ علیمہ خان نے اس صورتحال پر نہ صرف برہمی کا اظہار کیا بلکہ عدالت کو یہ بھی باور کرایا کہ انکارِ ملاقات صرف اُن کی تضحیک نہیں بلکہ جج صاحبان کی بھی توہین ہے۔
علیمہ خان نے توہینِ عدالت کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائی ہے، جس میں ہوم سیکرٹری پنجاب اور اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ عدالت نے 26 اکتوبر کے حکم نامے میں ملاقات کی اجازت دی تھی، لیکن بار بار کی کوششوں کے باوجود جیل انتظامیہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
"سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ چیف جسٹس کے حکم کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ رہا ہے"
علیمہ خان نے جج صاحبان کے رویے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب وہ عدالت پہنچی تو جج پہلے ہی کمرے سے "بھاگ" چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا:
"اگر جج حضرات ہمارے آنے سے پہلے ہی چھپ جائیں تو وہ ہمیں انصاف کیسے دے سکیں گے؟ اگر جج فیصلہ کر کے اس پر عملدرآمد نہیں کروا سکتے، تو اُن کے منصب کا کیا فائدہ؟"
انہوں نے مزید کہا کہ ایک جیل کا سپاہی یا ایک ادنیٰ اہلکار بھی اگر جج کے حکم کو نظر انداز کر دے، تو یہ عدلیہ کی تضحیک ہے۔

"سیاستدانوں کے پیچھے چھپے کچھ طاقتور لوگ صرف اپنا مفاد چاہتے ہیں"
گنڈا پور کے مطابق، "یہ لوگ جانتے ہیں کہ عمران خان آیا تو ان کی دھاندلیاں، طاقت اور مفادات ختم ہو جائیں گے۔"
علی امین گنڈا پور نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی بہنوں کو نہ ملنے دینا ایک بےحیائی اور بےغیرتی کی علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا سسٹم "چند لوگوں" کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے، جو عمران خان کی واپسی سے خوفزدہ ہیں۔
احمد نورانی کے بھائیوں کی جبری گمشدگی: ایک اور عدالتی المیہ

اس موقع پر معروف صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کی جبری گمشدگی کا ذکر بھی قابلِ توجہ ہے۔ احمد نورانی نے ایک رپورٹ میں سابق آرمی چیف کی فیملی سے متعلق سوالات اٹھائے تھے، جس کے بعد ان کے بھائیوں کو زبردستی اغواء کر لیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر، کئی ہفتے گزرنے کے باوجود نہ صرف ایف آئی آر درج نہیں ہوئی بلکہ عدالت نے بھی پولیس کو 10 دن بعد جواب دینے کی مہلت دے دی۔
یہ صرف ایک اور مثال ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں عام شہریوں کو کس طرح انصاف سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
یہ تمام واقعات ایک سنگین سوال کھڑا کرتے ہیں کہ کیا پاکستان میں واقعی "قانون کی حکمرانی" قائم ہے؟ جب ایک سابق وزیر اعظم کی بہن بھی عدالت میں دہائی دے رہی ہو، جب جج خود فیصلوں پر عملدرآمد نہ کروا سکیں، اور جب صحافیوں کے اہلخانہ کو زبردستی غائب کیا جائے، تو پھر عام شہری کی امیدیں کس سے وابستہ رہیں؟
0 Comments